کیا فرماتے ہیں علمائے کرام کہ اس مسئلہ کےبارےمیں کہ میرے والد صاحب کی وفات کے وقت ہم تین بھائی اور پانچ بہنیں زندہ تھی اور ہماری والدہ بھی زندہ تھیں اگرچہ اب فوت ہو چکی ہیں ہمارے والد صاحب کی وراثت میں پشاور میں ایک پانچ مرلہ کا گھر تھا والدہ صاحبہ نے اپنی زندگی میں میرے اوپر اصرار کیا کہ یہ گھر تم رکھ لو اور باقی بھائیوں کو حصہ دے دو اس وقت کی قیمت لگائی گئی اور وہ مکان ایک کروڑ بیس لاکھ روپے کا مقرر ہوا تو میں نے اپنے ہر بھائی کو چالیس لاکھ روپے ادا کر دئیے اور میری بہنوں نے کہا کہ ہم اپنا حصہ نہیں لیتی اور انھوں نے پشاور آ کر اپنے اپنے حصے کے مطابق پٹواری کے سامنے جا کر بیان دے دئیے کہ ہم اپنا حصہ اپنے بھائی مبین اسلم کو دیتی ہیں اور اس مکان سے ہم حصہ نہیں لیتی کچھ عرصہ کے بعد ہم کو ایک عالم نے بتایا کہ اس طرح کرنے سے بہنوں کا حصہ ختم نہیں ہوتا ، اب ہماری والدہ بھی فوت ہو گئی ہیں ان کی وراثت میں کچھ زیور ہے ، ہماری بہنیں کہتی ہیں کہ ہم والد صاحب کی وراثت میں کچھ نہیں لیتی آپ ہم کو اس زیور میں سے اپنا حصہ بھی ہم کو دے دیں اور یہ زیور ہمارے درمیان تقسیم کر دیں کیا اس طرح تقسیم کرنے سے ہمارے والد صاحب کی وراثت سے بہنوں کو دستبردار ہونا درست ہو گا جبکہ زیور میں بھائیوں کا حصہ تقریبا دو دو تولہ بنتا ہے اور مکان میں ہر بہن کا حصہ تقریبا دس لاکھ سے کچھ اورپر بنتا ہے اب شریعت کے مطابق رہنمائی فرمائیں کہ بہنوں کو زیور دینے سے والد صاحب والی وراثت کا مسئلہ حل ہو جائے گا یا نہیں؟
الجواب حامدا ومصلیا
میراث اور ترکہ میں جائیداد کی تقسیم سے پہلے کسی وارث کا اپنے شرعی حصہ سے بلا عوض دست بردار ہوجانا شرعاً معتبر نہیں ہے، البتہ ترکہ تقسیم ہوجائےتو پھر ہر ایک وارث اپنے حصے پر قبضہ کرنے کے بعد اپنا حصہ کسی کو دینا چاہے یا کسی کے حق میں دست بردار ہوجائے تو یہ شرعاً جائز اور معتبر ہے۔ اسی طرح کوئی وارث ترکہ میں سے کوئی چیز لے کر (خواہ وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو) صلح کرلے اور ترکہ میں سے اپنے باقی حصہ سے دست بردار ہوجائے تو یہ بھی درست ہے، اسے اصطلاح میں " تخارج" کہتے ہیں۔ان دونوں صورتوں میں پھر ایسے شخص کا اس ترکہ میں حق باقی نہ رہے گا۔
لہذا صورت مذکورہ میں اگرچہ بہنوں کے حصہ میں رقم زیادہ آ رہی ہے لیکن وہ کم مقدار میں سونا لے کر اپنے حصے سے دستبردار ہو رہی ہیں تو یہ جائز ہے اور اس کے بعد بہنوں کا ترکہ میں کوئی حصہ باقی نہیں رہے گا ، تاہم اگر بھائی اپنی خوشی سے دل جوئی کے لیے بہنوں کو کچھ رقم مزید دے دے تو شرعاً کوئی قباحت نہیں۔
كما فى قره عين الأخيار لتكملة رد المحتار علي الدر المختار:
وَلَو قَالَ تركت حَقي من الْمِيرَاث أَو بَرِئت مِنْهَا وَمن حصتي لَا يَصح وَهُوَ على حَقه، لَان الارث جبري لَا يَصح تَركه.
(8/ 208بَاب دَعْوَى النّسَب/ دار الفكر).
وفى الأشباه والنظائر لابن نجيم:
لو قال الوارث: تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك.
(ص: 272ما يقبل الإسقاط من الحقوق/ دار الفكر).