بسم الله الرحمن الرحيم
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے والد صاحب نے اپنی وفات سے تقریبا چھ سات سال پہلے اپنی ساری جائیداد اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے نام ہبہ کر دی لیکن کچھ عرصہ کے بعد کسی وجہ سے انھوں نے سب سے جائیداد واپس لے لی لیکن پھر اپنی زندگی میں اپنے ایک بیٹے بابر زیب کو قانونی طور پر اپنی جائیداد کا ایک تہائی حصہ کاغذات میں ہبہ کر دیا اس کے کچھ عرصہ بعد ایک تہائی مزید ہبہ کر دیا اور تیسری مرتبہ ایک تہائی مزید ہبہ کر دیا اور ساری جائیداد اس ایک بیٹے بابر زیب کو ہبہ میں دے دی مختلف اوقات میں جبکہ تقریبا دس مرلہ ایک بہن کے نام پر باقی رہ گیا تھا اور باقی ساری اولاد کو محروم کر دیا گیا جب باقی اولاد کو علم ہوا تو انھوں نے والد صاحب کو اپنے چچوں کے زریعے تنبیہ کروائی تو والد صاحب نے فرمایا کہ اب میں نے ہبہ کر دی ہے اب تو بابر کے نام پر ہے اس کو کہہ دیں کہ وہ باقیوں کو بھی دے دے لیکن پھر والد صاحب کی وفات ہو گئی وفات کے وقت ہم تین بھائی عالم زیب، عامر خان، بابر زیب زندہ موجود ہیں اور تین بہنیں ثمینہ سلیم ، تہمینہ طارق، روبینہ منیر بھی موجود ہیں اور ہماری والدہ حمیدہ بیگم بھی والد صاحب کی وفات کے وقت زندہ تھیں لیکن اب ہماری والدہ فوت ہو گئی ہیں۔
والد صاحب کی تمام پراپرٹی مشترکہ ہی پڑی ہوئی تھی اور اب تک اسی طرح ہے جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے :
زمین تقریبا دو سو کنال
پٹرول پمپ جو ہمارے بھائی بابر زیب نے خود بنوایا تھا
ایک ہوٹل اور کمرشل جگہ دکانیں جو بڑے بھائی عالم زیب کے قبضہ میں ہے
والد صاحب کا گھر دو منزل تھا والدہ بھی اسی میں رہتی رہی ہیں ایک منزل ایک بھائی کے پاس ہے دوسری منزل دوسرے بھائی کے پاس ہے۔
ایک گھر والدہ کو مہر کے طورپر دیا گیا تھا وہ بھی ایک بھائی بابر زیب نے اپنے نام پر کروا لیا ہے
گاڑیاں تین عدد تھیں
نقد رقم تقریبا ایک کروڑ روپے موجود تھی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ ہبہ مکمل ہوگیا ہے اور باقیوں بھائیوں کو کچھ بھی نہیں مل سکتا شریعت کی روشنی میں یا باقی بھائیوں او ر بہنوں کا حق بھی اس میں ہے اگر ہے تو کتنا ہے اور اگر ہبہ مکمل ہوگیا ہے تو کیا ہمارے والد صاحب پر آخرت کے اعتبار سے کوئی مواخذہ تو نہیں ہو گا کہ انھوں نے ایک بیٹے کو ساری پراپرٹی دے دی اور باقی بیٹوں اور بیٹیوں کو محروم کر دیا جواب دے کر ماجور ہوں؟
الجواب حامدا ومصلیا
اصل مسئلہ سمجھنے سے پہلے دو باتیں سمجھنا ضروری ہے :
(۱)ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک وہ مختا ر ہوتا ہے ، وہ ہر جا ئز تصرف اس میں کرسکتا ہے ، تاہم اگر وہ اپنی زندگی میں اپنا مال وجائیداد اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چا ہے، تو اس میں بہتر یہ ہے ،کہ ان میں برابری کے ساتھ تقسیم کریں ، البتہ اگر کسی ایک وارث کو اس کی دینداری یا خدمت کی وجہ سے زیادہ دینا چاہے تو دے سکتا ہے ، لیکن بلاوجہ ایک وارث کو سارا مال وجائیداد دے کر باقی اولا د کو محروم کرنا شرعا درست نہیں ، اس کی وجہ سے وہ گناہ گار ہونگے۔
(۲)جب کسی کو کوئی چیز ہبہ کی جائے ، تو جب تک اس کو باقاعدہ قبضہ نہ کرایا جائے ، اس وقت تک وہ اس کا مالک نہیں بنتا۔
اس تمہید کے بعد اصل مسئلہ ملاحظہ ہو۔
والد صاحب نے جب اپنی اولاد میں زمین تقسیم کی تھی ، اگر ان کو باقاعدہ قبضہ بھی کروایا تھا، تو اس صورت میں وہ اس زمین کے مالک بن گئے تھے ،لہٰذ ا بعد میں والد صاحب کا رجوع درست نہیں ، اور وہ زمین باقاعدہ ان کی ملکیت ہے ، لیکن اگر والدصاحب نے صرف زمین تقسیم کی تھی ،باقاعدہ قبضہ نہیں کروایا تھا ، تو اس صورت میں ہبہ تام نہیں ہوا ، لہٰذا والد صاحب کا رجوع درست ہے ۔ اس کے بعد اگر والد صاحب نے اپنے ایک بیٹے بابرزیب کو ہبہ کرانے کے ساتھ ساتھ باقاعدہ قبضہ بھی کروایاہو، تو ا س صورت میں بابر زیب ہی اس کا مالک ہے، اس میں دوسرے ورثاء کا کوئی حق نہیں اگر چہ بلاوجہ دیگر ورثاء کو محروم کرنے کی وجہ سے وہ گناہ گار ہونگے، لیکن اگر صرف زمین ہبہ کی تھی ، قبضہ نہیں کروایاتھا ، تو اس صورت میں مذکورہ مال وجائیداد بد ستور والد صاحب کی میراث ہے ، جو شرعی حصص کے مطابق تمام ورثاء میں بقدرِ حصص تقسیم ہوگی۔
بقیہ جس بھائی نے کوئی بھی چیز جو اس نے اپنے ذاتی پیسوں سے بنائی ہو وہ اس کی ذاتی ملکیت ہے اس میں کسی قسم کی وراثت جاری نہیں ہوگی ۔
کما فى مشکاۃ المصابیح:
وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»''۔ (1/261،بابالعطایا، ط: قدیمی کتب خانه)۔
وايضاّ:
عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه.
(2/ 926/كتاب الفرائض والوصايا/الفصل الثالث/المكتب الإسلامي)
وفى الدرالمختاروحاشيةابنعابدين (ردالمحتار):
و)شرائطصحتها (فيالموهوبأنيكونمقبوضاغيرمشاعمميزاغيرمشغول).
(5/ 688/كتابالهبة/دارالفكر)
وفى بدائعالصنائع
إذاوهبدارافيهامتاعالواهبوسلمالدارإليهأوسلمالدارمعمافيهامنالمتاعفإنهلايجوزلأنالفراغشرطصحةالتسليموالقبضولميوجدقيلالحيلةفيصحةالتسليمأنيودعالواهبالمتاععندالموهوبلهأولاويخلىبينهوبينالمتاعثميسلمالدارإليهفتجوزالهبةفيهالأنهامشغولةبمتاعهوفييدالموهوبله.
(6/ 125/كتابالهبة/فصلفيشرائطركنالهبة/دارالكتبالعلمية)
وفى البحر الرائق:
(قولهفيمحوزمقسومومشاعلايقسم) أيتجوزالهبةفيماذكرقيدبالمحوزلأنالمتصلكالثمرةعلىالشجرلاتجوزهبتهوقيدالمشاعبمالميقسملأنهبةالمشاعالذيتمكنقسمتهلايصح.
(7/ 286 كتاب الهبة/ دار الكتاب الإسلامي ).
وفى درر الحكام:
( وتتم ) عطفعلىتصح ( بالقبض ) قالالإمامحميدالدينركنالهبةالإيجابفيحقالواهب؛لأنهتبرعفيتممنجهةالمتبرعأمافيحقالموهوبلهفلايتمإلابالقبولثملاينفذملكهفيهإلابالقبض ( الكامل ) الممكنفيالموهوبوالقبضالكاملفيالمنقولمايناسبهوفيالعقارمايناسبهفقبضمفتاحالدارقبضلهاوالقبضالكاملفيمايحتملالقسمةبالقسمةحتىيقعالقبضعلىالموهوببالأصالةمنغيرأنيكونبتبعيةقبضالكلوفيمالايحتملالقسمةبتبعيةالكل ( ولو ) وصلية ( شاغلالملكالواهبلامشغولابهفتتم ) تفريععلىقولهوتتمبالقبضالكامل ( بالقبضفيمجلسها ) أيفيمجلسالهبة ( بلاإذنه ) أيالواهب ( وبعده ) أيبعدالمجلس ( به ) أيبإذنه.
(2/ 218 باب مَا تَصِحّ بِهِ الْهِبَة/ دار إحياء الكتب العربية).
وفى الاختيار لتعليل المختار:
قال: (ولارجوعفيمايهبهلذيرحممحرممنهأوزوجةأوزوج) ; لأنالمقصودصلةالرحموزيادةالألفةبينالزوجين،وفيالرجوعقطيعةالرحموالألفة ; لأنهاتورثالوحشةوالنفرةفلايجوزصيانةللرحمعنالقطيعةوإبقاءللزوجيةعلىالألفةوالمودةوفيالحديث: «إذاكانتالهبةلذيرحممحرملميرجعفيها»،وسواءكانأحدالزوجينمسلماأوكافرالشمولالمعنى،ولووهبهاثمأبانهالميرجع.
(3/ 52 فصل الرجوع في الهبة/ دار إحياء الكتب العربية)۔
وفى الهندية:
ومنهاأنيكونالموهوبمقبوضاحتىلايثبتالملكللموهوبلهقبلالقبضوأنيكونالموهوبمقسوماإذاكانممايحتملالقسمةوأنيكونالموهوبمتميزاعنغيرالموهوبولايكونمتصلاولامشغولابغيرالموهوبحتىلووهبأرضافيهازرعللواهبدونالزرعأوعكسهأونخلافيهاثمرةللواهبمعلقةبهدونالثمرةأوعكسهلاتجوزوكذالووهبداراأوظرفافيهامتاعللواهبكذافيالنهايةومنهاأنيكونمملوكافلاتجوزهبةالمباحاتلأنتمليكماليسبمملوكمحالومنهاأنيكونمملوكاللواهبفلاتجوزهبةمالالغيربغيرإذنهلاستحالةتمليكماليسبمملوكللواهبكذافيالبدائع.
(4/ 374 الْبَابُ الْأَوَّلُ تَفْسِير الْهِبَةِ وَرُكْنهَا وَشَرَائِطهَا وَأَنْوَاعهَا وَحُكْمهَا/ دار الفكر)۔
وايضاّ:
ولووهبرجلشيئالأولادهفيالصحةوأرادتفضيلالبعضعلىالبعضفيذلكلاروايةلهذافيالأصلعنأصحابناورويعنأبيحنيفةرحمهاللهتعالىأنهلابأسبهإذاكانالتفضيللزيادةفضللهفيالدينوإنكاناسواءيكرهوروىالمعلىعنأبييوسفرحمهاللهتعالىأنهلابأسبهإذالميقصدبهالإضراروإنقصدبهالإضرارسوىبينهميعطيالابنةمثلمايعطيللابنوعليهالفتوىهكذافيفتاوىقاضيخانوهوالمختاركذافيالظهيريةرجلوهبفيصحتهكلالمالللولدجازفيالقضاءويكونآثمافيما.
(4/ 391/كتابالهبة/السادسفيالهبةللصغير/دارالفكر)۔
وفى فقه البيوع:
ثمّ القبض عرّفه الفقهاءبعباراتٍمختلفة.فجاءفیالقوانینالفقهيةلابنجُزیّ:’’القبض عبارة عن حیازةالشّیئوالتّمکّنمنه سواءاکانممّایُمکنتناوله بالیداولمیکن۔وقالالکاسانیرحمه الله تعالیٰ:معنیالقبض هوالتّمکینوالتّخلیوارتفاعالموانععُرفاًوعادةًحقیقةً.
(1/398/مكتبة معارف القرآن:كراتشي)
وايضاّ:
فاللذی یظهرأنه لاينبغی ان یُعتبر التّسجیل قبضاًناقلاًللضّمان فی الفقه الاسلامي.الاّ اذاصاحبته التّخلیة بالمعنی الذی ذکرناه.
(1/405/مكتبةمعارفالقرآن:كراتشي)