بیعانہ کا شرعی حکم

18 مئی 2022

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ احمد علی نے شاکر خان سے چھ مرلہ زمیں کا عقد کیا اس کی صورت یوں ہے کہ احمد علی نے شاکر خان کوتین لاکھ بطور بیعانہ دے دیے اور عدالت میں جا کر اس کا اسٹامپ پیپر بیان حلفی جس کے الفاظ یہ ہیں فریق اول وقت مقررہ پر بقیہ رقم اداکرنےکاپابندہوگااگر ادانہ کرے تو وہ یہ تین لاکھ نہیں لے گا اور فریق ثانی اگر وقت مقررہ پرانتقال ورجسٹری نہ دے یا اپنی بات سے پھر جاۓ تو وہ چھ لاکھ فریق اول کو دینے کا پابند ہو گا۔اب پوچھنا یہ ہے کہ فریق ثانی اپنی بات سے پھر گیا اور مقررہ وقت پر انتقال نہیں دیا کیا فریق اول کے لیے بیعانہ کے علاوہ اضافی تین لاکھ فریق ثانی سے لینا جائز ہے یا نہیں قرآن وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ۔

جزاکم اللہ

الجواب حامدا ومصلیا

جب کوئی شخص کسی سے کوئی چیز خریدتا ہے  تو چیز کی کچھ قیمت شروع میں دے دیتا ہے اور یہ معاہدہ کرتا ہے کہ باقی رقم کچھ دنوں کے بعد ادا کروں گا  یہ رقم جو شروع میں دی گئی اس کو بیعانہ کہتے ہیں  ، اگر معاہدے کے بعد مشتری (چیز خریدنے والا) اس چیز کو نہ لے سکے تو فروخت کنندہ کے لئے وہ رقم حلال نہیں ہو گی بلکہ اس کو چاہئے کہ وہ خریدار کو رقم واپس کر دے  ہمارے ہاں بیعانہ ضبط کرنے کا جو رواج ہے شرعی طور پر یہ غلط ہے  اور فروخت کنندہ کے لئے یہ حلال نہیں ہو گی اسی طرح اگر کسی عذر کی وجہ سے بائع چیز نہ دے سکے تو اس پر بھی اتنی رقم واپس کرنا ضروری ہے  جتنی اس نے وصول کی تھی ڈبل رقم واپس کرنے کا اس کو مکلف بنانا بھی شرعا جائز نہیں ہے لیکن  بائع  کا بھی بغیر کسی عذر کے یا قیمت کے بڑھ جانے کی وجہ سے  رجسٹری وغیرہ نہ  دینا اور بیع سے انکار کرنا  وعدہ خلافی  کی وجہ سے جائز نہیں اس سے احتراز کرنا واجب ہے ۔

كما فی سنن ابن ماجه :

عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، «أن النبي صلى الله عليه وسلم، نهى عن بيع العربان» . قال أبو عبد الله: العربان أن يشتري الرجل دابة بمائة دينار، فيعطيه دينارين عربونا، فيقول إن لم أشتر الدابة فالديناران لك، وقيل: يعني والله أعلم، أن يشتري الرجل الشيء فيدفع إلى البائع درهما، أو أقل، أو أكثر، ويقول: إن أخذته وإلا فالدرهم لكَ۔

(2/ 739 باب بيع العربان/ دار إحياء الكتب العربية)۔

وفی مصنف ابن أبي شيبة:

عن قسامة بن زهير قال: «لا إيمان لمن لا أمانة له ولا دين لمن لا عهد له»۔

(6/ 168 كتاب الإيمان والرؤيا/ مكتبة الرشد)۔

وفی بداية المجتهد ونهاية المقتصد:

ومن هذا الباب بيع العربان: فجمهور علماء الأمصار على أنه غير جائز...........وصورته: أن يشتري الرجل شيئا فيدفع إلى المبتاع من ثمن ذلك المبيع شيئا على أنه إن نفذ البيع بينهما كان ذلك المدفوع من ثمن السلعة، وإن لم ينفذ ترك المشتري بذلك الجزء من الثمن عند البائع ولم يطالبه به; وإنما صار الجمهور إلى منعه لأنه من باب الغرر والمخاطرة، وأكل المال بغير عوض۔

(3/ 181الباب الرابع في بيوع الشروط والثنيا/ دار الحديث)۔