ایڈز دیکھ کر پیسہ کمانا

18 مئی 2022

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آن لائن ایک کمپنی ہےاگر کوئی بندہ اس کے ایڈز دیکھ کر پیسہ کمانا چاہتاہے تو وہ پہلے مہینے میں پیکج خریدے گا۔اور پھر اسے اپنے پیکج کے حساب سے ہر  ایڈ کلکنگ کی کمائی ملے گی،مثلا  اگر کوئی بندہ 1000کا پیکج خریدے گا تو اسے ہر روز 20 ایڈز  دیے جائیں گے، اور اس پر کلک کرنے سےپر ایڈ 2 روپیہ اور ٹوٹل 40 روپے ملیں گے ۔اور مہینے کے آخر 10 دنوں 60 ایڈز ایسے ملتے ہیں جن کو کلک کرنے پر آپ کو تقریبا 1200 روپے ملتے ہیں۔یہ ٹوٹل 2400روپیہ بنتا ہے۔ ہر پیکج کا ویلڈیٹی 60 دن تک کا ہوتا ہے۔ یعنی 1000کا پیکج خرید کر آپ کو  دن میں کم و بیش تقریباً  80 روپے کے لگ بھگ ملیں گے ۔اور اسی طرح آپ کے پاس جس درجہ کا پیکج اس کے حساب سے آپ کو کمائی ملے گی، زیادہ مہنگے پیکج سے آپ کو زیادہ منافع ہو جاتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ پیکج خرید کرایڈز دیکھ کر جو کمائی کی جاتی ہے اس کا کیا حکم ہے؟

الجواب حامدا ومصلیا

سوال میں مذکورہ طریقہ کار  پر کام کرکے پیسہ کمانا درج ذیل وجوہات کی بنا پر ناجائز ہے:

۱۔اس میں ایسے لوگ  اشتہارات کو دیکھتے ہیں  جن کایہ چیزیں لینے کا کوئی ارادہ ہی نہیں، جیسا کہ آپ ویڈیو میں مختلف اشتہار دیکھتے ہیں۔  بائع کو ایسے دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ دکھانا جو کہ کسی طرح بھی خریدار نہیں، یہ بیچنے اور خریدنے والے کے ساتھ  ایک قسم کا دھوکا ہے۔

 ۲۔ بعض ویڈیوز چونکہ تصاویر پر مشتمل ہوتی ہیں جس میں بعض نیم برہنہ اور غیر محارم خواتین کی ہوتی ہیں جسے بلا ضرورت دیکھنا جائز نہیں ہے۔

۳۔مزید یہ کہ آپ نے اس بات کی وضاحت نہیں کی اور نہ ہی اس ویب سائٹ پر اس قسم کی کوئی وضاحت موجود ہے کہ  لی جانے والی رقم کس مد میں لی جاتی ہے؟ اگر یہ محض پیکج کی قیمت ہے تو اس پیکج کے خریدنے کا حکم گزر چکا۔ اور اگر یہ کسی قسم کی سرمایہ کاری ہے،تو اس رقم سے کون سا  کاروبار کیا جاتا ہے؟ یہ بھی واضح نہیں۔ اس  لیے یہ بظاہر  سودی لین دین ہی کی ایک شکل ہے۔

لہٰذا حلال کمائی کے لیے کسی بھی  ایسے طریقے کو اختیار کرنا چاہیے کہ جس میں اپنی محنت شامل ہو ایسی کمائی زیادہ بابرکت ہوتی ہے۔البتہ ایڈز (اشتہارات) دیکھ کر آپ اتنے پیسے وصول کر سکتے ہیں جتنے آپ نے جمع کروائے تھے، جمع کروائی گئی رقم سے زیادہ رقم وصول کرنا جائز نہیں ہوگا۔

كما فی شعب الإيمان:

" عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُمَيْرٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْكَسْبِ أَطْيَبُ؟ قَالَ: " عَمَلُ الرَّجُلِ بِيَدِهِ، وَكُلُّ بَيْعٍ مَبْرُورٍ ".

شعب الإيمان (2/ 434 باب التوكل بالله عزوجل/مكتبة الرشد للنشر والتوزيع).

ترجمہ:آپ ﷺ سے پوچھا گیا  کہ سب سے پاکیزہ کمائی کو ن سی ہے؟تو آپ ﷺنے فرمایا: آدمی کا  خود  اپنے ہاتھ سے محنت کرنا اور ہر جائز اور مقبول بیع۔

وفي شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن:

" قوله: ((مبرور)) أي مقبول في الشرع بأن لايكون فاسدًا، أو عند الله بأن يكون مثابًا به".

(7/ 2112 باب الكسب وطلب الحلال/مكتبة نزار مصطفى الباز).

وفى رد المحتار:

"مطلب في أجرة الدلال، قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير

كذا فذاك حرام عليهم .وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسداً؛ لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز ، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام".

(6/ 63 مطلب في أجرة الدلال/دار الفكر).

وفي الموسوعة الفقهية الكويتية:

"الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة، وعقدها باطل لا يستحق به أجرة . ولا يجوز استئجار كاتب ليكتب له غناءً ونوحاً ؛ لأنه انتفاع بمحرم ... ولايجوز الاستئجار على حمل الخمر لمن يشربها ، ولا على حمل الخنزير". 

(1/ 290 الإجارة على المعاصي والطاعات/وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية).