نکاح میں نفقہ ناچاقی مقرر کرنے کا حکم

18 مئی 2022

کیا  فرماتے ہیں علمائے کرام کہ آج کل نکاح فارم میں ایک شق ہوتی  ہے ماہوار نفقہ بصورت ناچاقی  اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟

الجواب حامدا ومصلیا

شریعت میں  نکاح کے بعد جب بیوی شوہر کے گھر  آ جاتی ہے تو اس کا نان نفقہ اور سکنیٰ یعنی رہائش شوہر پر واجب  ہو جاتی ہےجب شوہر کی طرف سے  بیوی کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی  نہ ہو اس کے باوجود  بیوی شوہر  کی اجازت کے بغیر ہی اس کے گھر سے چلی جائے اور والدین کے گھر میں جا کر رہے تو  ایسی بیوی کو  شرعاناشزہ کہا جاتا ہے اور ناشزہ عورت کا نان نفقہ شوہر کے ذمہ واجب نہیں رہتا  اس لئے ناچاقی کی صورت میں یہ دیکھا جائے کہ قصور کس کا ہے اگر شوہر ظلم کر رہا ہو تو پھر عورت کا نان نفقہ اس کے ذمہ واجب رہے گا اوراگر زیادتی عورت کی طرف سے ہے اور وہ شوہر کی اجازت  کے بغیر اس کا گھر چھوڑ چکی ہے تو پھر شوہر پر نان نفقہ واجب نہیں ہے ، البتہ اگر شوہر شروع میں اپنی رضامندی سے  یہ معاہدہ کر لے کہ میں ہر صورت میں نفقہ دوں گا تو حسب وعدہ  خاوند کو چاہئے کہ نفقہ ادا کرتا رہے تا کہ معاہدہ کی خلاف ورزی نہ ہو۔

كما فى مصنف ابن أبي شيبة:

عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ قَالَ: «لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ وَلَا دِينَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ».

(6/ 168باب ما قالوا في صفة الإيمان/ مكتبة الرشد).

وفى البناية شرح الهداية:

وإن نشزت فلا نفقة لها حتى تعود إلى منزله؛ لأن فوت الاحتباس منها، وإذا عادت جاء الاحتباس، فتجب النفقة، بخلاف ما إذا امتنعت من التمكين في بيت الزوج؛ لأن الاحتباس قائم، والزوج يقدر على الوطء كرها.

(5/ 666 باب نفقة من امتنعت من تسليم نفسها حتى يعطيها ممهرها/ دار الكتب العلمية).

وفى الاختيار لتعليل المختار:

وسبب وجوبها احتباسها عند الزوج إذا كان يتهيأ له الاستمتاع وطئا أو دواعيه أو التحصين لمائه بعد زوال النكاح لأنها لما صارت محبوسة عنده في حقه عجزت عن الاكتساب والإنفاق على نفسها، فلو لم تستحق النفقة عليه لماتت جوعا.

قال: (وتجب للزوجة على زوجها إذا سلمت إليه نفسها في منزله نفقتها وكسوتها وسكناها)۔

(4/ 3 باب النفقة/ مطبعة الحلبي).

وفى رد المحتار:

 (خارجة من بيته بغير حق) وهي الناشزة حتى تعود۔

(ص: 258 باب النفقة/ دار الكتب العلمية).

وأيضا:

 (قَوْلُهُ وَمَحْبُوسَةٌ وَلَوْ ظُلْمًا) شَمِلَ حَبْسَهَا بِدَيْنٍ تَقْدِرُ عَلَى إيفَائِهِ أَوْ لَا قَبْلَ النَّفَقَةِ إلَيْهِ أَوْ بَعْدَهَا، وَعَلَيْهِ الِاعْتِمَادُ زَيْلَعِيٌّ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى فَتْحٌ؛ لِأَنَّ الْمُعْتَبَرَ فِي سُقُوطِ نَفَقَتِهَا فَوَاتُ الِاحْتِبَاسِ لَا مِنْ جِهَةِ الزَّوْجِ بَحْرٌ

(3/ 578 مطلب لا تجب على الأب نفقة زوجة ابنه الصغير / دار الكتب العلمية).