Notice
ایک بوڑھی کی دعا حضرت خلیفہ غلام رسول صاحب ؒ نے ایک سلسلئہ گفتگومیں فرمایا کہ:ایک بوڑھی عورت دعا مانگا کرتی تھی کہ اللہ میں کمزور ہوں ، میرے دشمن چھپے ہوئے ہیں اور طاقتور ہیں ، مجھے نظر نہیں آتے ، اے اللہ !ان چھپے ہوئے دشمنوں سے میری حفاظت فرما اور میری مدد فرما (یعنی شیطان اور نفس)۔ اللہ رب العزت حفیظ ہے حضرت خلیفہ غلام رسول صاحب ؒنے ایک سلسلئہ گفتگو میں فرمایا کہ :میں کلوروکوٹ میں امام مسجد تھا ، ایک گھر کی چھت گر گئی ، لوگوں نے چھت کا سامان اٹھایا ، بچے ہنس رہے تھے ،بیل وغیرہ محفوظ تھے کسی کونقصان نہیں پہنچا۔فرمایا:وہاں ایک دراز قد ، مونچھوں والا نوجوان کھڑا تھا ، اس نے جب یہ منظر دیکھاتو کہا کہ :اللہ ایسا ہونا چاہئے ! علم ہوگا ، اللہ پاک نفع نہیں دے گا ایک سلسلئہ گفتگو میں حضرت خلیفہ غلام رسول صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ :حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے ہزاروں شاگرد تھے ، ایک علاقے میں گئے ، وہاں پر سارے شاگرد آئے ، ایک نہ آئے ، بلکہ وہ دیر کے بعد آئے ، حضرتؒ نے کہا :میری خبر آپ کو نہ پہنچی ؟کہنے لگے:میرا کچھ کام تھا ، جس کی وجہ سے دیر ہو گئی ، حضرت ؒ نے فرمایا:علم ہو گا ، اللہ پاک نفع نہیں دے گا۔حضرت خلیفہ صاحب ؒ نے فرمایا: بعض حضرات اپنے پیروں کو ، خلفاء کو برا بھلا کہتے ہیں ، یہ حد ہے ۔ حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت سواگی رحمۃ اللہ علیہ اور مریدین کی تربیت مؤرخہ ۴جولایٔ ۲۰۰۷ء کو ایک سلسلئہ گفتگو میں حضرت خلیفہ صاحب ؒ نے فرمایا:بات مریدوں کی تربیت سے چلی ، فرمایا:حضرت احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ تہجد کے وقت شہادت کی انگلی کے اشارے کی طرح نشان بنا کر اور شہادت کے ساتھ والی انگلی کو حرکت دے کر مریدین کو بلاتے تھے ۔فرمایا: ایک ایک مرید کو اپنے تسبیح خانے میں طلب کرتے تھے اور سبق دیا کرتے تھے ، پوچھتے تھے :سبق یاد کیا ہے ؟اور مختلف لطائف پر خود توجہ دیتے تھے ۔ اللہ والے عجیب ہوتے ہیں ! ایک سلسلئہ گفتگو میں حضرت خلیفہ غلام رسول صاحب ؒ نے فرمایا: اللہ والے عجیب ہوتے ہیں ۔فرمایا:ایک دفعہ قحط پڑ گیا تھا ، کافی دنوں سے بارش نہیں ہوئی ، لوگوں نے حضرت خواجہ غلام حسن سواگی رحمۃ اللہ علیہ سے شکایت کی ، حضرت ؒ نے دعا کے لئے ہاتھ اوپر اٹھائے اور فرمایا کہ :اگر آج بارش نہ ہوئی تو میری داڑھی صاف کر دینا۔کسی اہل علم نے اعتراض کیا ، جواب میں فرمایا کہ :مجھے خود بھی ان الفاظ کا احساس ہے ،لیکن میں کیا کروں ،میرے لئے اللہ تعالی کا حکم تھا۔ حضرت خواجہ غلام حسن سواگی رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ یہ تھا کہ اگر سبق (مراد ذکر کا سبق ہے ) پکا اور یاد ہوتا تو دوسرا (اگلا) سبق دیتے تھے ، وگرنہ کہتے کہ جاؤ کوشش کرو ، سبق یاد کرو۔فرمایا:حضرت خواجہ غلام حسن سواگی رحمۃ اللہ علیہ صرف لطیفہ قلب پر سبق دیا کرتے تھے ، اور فرمایا کرتے تھے سرائیکی زبان میں :مرو اوترے کم کیوں نیوے کریندے ،حضرت خواجہ غلام حسن رحمۃ اللہ علیہ صرف علمائے کرام کو لطیفہ قلب کے علاوہ دوسرے لطائف پر سبق دیتے تھے ۔ حسن سلوک اور مریدین کی ضرورتوں اور پریشانیوں کے لئے فکر مند ہونا : ایک دفعہ احقر گرمیوں میں جیپ لے کر حضرت خلیفہ غلام رسول صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا ،حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے گاؤں میں عام گاڑیاں نہیں جا سکتی تھیں، صرف جیپ سے سفر مکمل ہوتا تھا ،حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ گرہ مدہ جائیں گے ۔مدہ گاؤں میں حضرت کے کافی مریدین ہیں، انتہائی سادہ لوگ ہیں، خوب ذاکرلوگ تھے ،احقر نے عرض کیا:حضرت سخت گرمی ہے ،سفر انتہائی مشکل اور دور کا ہے ،اور علاقہ غیر ہے ۔ لیکن حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اصرار کیا اور کہا کہ گرہ مدہ (گاؤں ) میں میرے ایک مریدکے بھائی کو کسی نے گولی مار دی ہے اور وہ فوت ہوگیا ہے ،اس کی دعاکے لئے جائیں گے ،ہم ظہر کے وقت سخت گرمی میں روانہ ہوئے ،اور مغرب کے بعد اندھیرے میں وہاں پہنچے ،وہاں پر رات گزاری اور صبح ناشتہ کے بعد دوسرے گاؤں لونی کے لئے روانہ ہو گئے ،وہاں پرحضرت خلیفہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے استاذ صاحب کے بارے میں احقر سے فرمایا کرتے تھے کہ ان کا سر تو چھوٹا ہے، لیکن دماغ اس کے اندر بہت بڑا ہے ، فرماتے تھے : میں نے ان جیسا رونے والا عالم دین نہیں دیکھا۔فرماتے تھے : ٹھیک رات کے ڈھائی بجے وہ تہجدمیں رب العزت کے سامنے کھڑے ہو جاتے اور دعا کے وقت داڑھی کے بالوں کو پکڑ کر روتے کہ اے اللہ ! ان سفید بالوں کی لاج رکھ لے ۔ فرمایا: ایک دفعہ ضیاء الحق کے دور میں غالبا عثمان علی شاہ صوبہ سرحد کے گورنر تھے ،وہ حضرتؒ کے مریدین میں سے تھے ،شیخ الحدیث صاحب کو اپنے ساتھ پشاور لے گئے اور اپنے ایک بیٹے کی گومل یونیورسٹی میں بطور لیکچرار تعیناتی کی حضرت سے سفارش کروائی۔ حضرت خلیفہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے گورنر صاحب کے ہاتھ کو پکڑ کر کہا کہ :شیخ الحدیث صاحب ، استاذ محترم کے بیٹے کی درخواست پر دستخط کرو ۔ اور اس طرح ان کی پوسٹنگ ہوئی ، حالانکہ اس وقت حضرت کے تینوں بیٹے بے روزگار تھے ۔حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بیٹے کے لئے ان کو نہ کہا ۔یہی معاملہ حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مریدین کے ساتھ تھا ، ان کے کام لوگوں سے کرواتے تھے ، لیکن اپنے بیٹوں کی کبھی پروا نہ کی ۔ نبی کریم ﷺ کی سنتوں کی اہمیت: احقر (حضرت ڈاکٹر عبدالسلام صاحب مد ظلہ ) نے حضرت خلیفہ غلام رسول صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ایک مرتبہ مراقبے کے دوران کا حال بیان کیا کہ مراقبے میں دیکھا کہ دائیں ہاتھ میں احقر نے کوئٹہ کے پانچ مسواک مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں ،حضرت ؒ سے تعبیر پوچھی ، فرمایا:یہ اشارہ سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کی طرف ہے ، اللہ تعالی یہ نصیب کرے گا ۔فرمایا کہ :حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ مجھ سے بعض مقامات سنت پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے رہ گئے ۔ ایک دفعہ حافظ فیض اللہ سیال احقر کے ہمراہ تھے ، میں ان کو حضرت خلیفہ غلام رسول صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں لے گیا، احقر نے حافظ صاحب کاتعارف کرایا ، اور کہا کہ حضرت! کچھ نصیحت کریں ۔حضرت خلیفہ غلام رسول صاحب ؒ نے فرمایا کہ :کامیابی نبی کریم ﷺ کی سنت کی اتباع میں ہے ، بار بار یہی فرمایا کہ لباس میں ، کھانے میں ، سونے میں ، بیت الخلا میں نبی پاک ﷺ کے طریقے کو اپنانا چاہئے ، فرمایا:اللہ رب العزت کا فرمان ہے جو رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرے گا ، میں اس سے محبت کروں گا ۔پھر فرمایا کہ:حضرت شیخ احمد سرہندی حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ :جو مقامات مجھے ملے ہیں ، سنت کی اتباع سے ملے ہیں ، اور جو مقامات مجھ سے رہ گئے ہیں ، وہ سنت پر عمل نہ کرنے یا سنتوں کے چھوڑنے کی وجہ سے رہ گئے ہیں ۔پھر ایک واقعہ بیان کیا کہاایک شخص نے تصوف پر کتاب لکھی ، وہ کتاب ایران میں ایک ایرانی نے پڑھی ، وہ شخص مصنف کی زیارت کے لئے ہندوستان آیا ،تو وہ حجام کی دکان پر داڑھی منڈوا رہا تھا ، اس شخص نے کہا کہ :یہ تم کیا کر رہے ہو ؟مصنف نے جواب دیا کہ :میری اپنی داڑھی ہے ، اس سے آپ کو کیا مطلب ؟اس شخص نے کہا کہ :تم رسول اللہ ﷺ کے جگر کو کاٹ رہے ہو !یہ سنتے ہی وہ بے ہوش ہو کر کرسی پر گر گیا ، جب ہوش میں آیا تو کہنے لگا :مجھے آج اس بات کی سمجھ آ گئی ہے ،اور اس نے داڑھی رکھ لی ۔ حضوری دو طرح کی ہوتی ہے او ر علم تین طرح کا ہوتا ہے حضرت خلیفہ غلام رسول صاحب ؒ نے ایک سلسلئہ گفتگو میں فرمایا کہ :حضوری دو قسم کی ہوتی ہے ، ایک یہ ہے کہ لطائف کاجاری ہونا اور پھر ان کی حفاظت کرنا یعنی ان کو چالو رکھنا ۔ دوسرے قسم کی حضوری کا تعلق مع اللہ ہے ، اس میں سالک کی توجہ دل کی طرف ہوتی ہے ، اس کو توجہ اور یادداشت بھی کہتے ہیں ، اور سالک یہ کہے :مقصود من توہی ورضائے تو ۔پھر فرمایا:دائمی حضوری کی تعریف اہل اللہ نے یوں کی ہے ،بقول حضرت عبدالرحمن جامی رحمۃ اللہ علیہ:حضوری یہ ہے کہ ہر وقت اللہ تعالی کا مشاہدہ ہو ۔ بقول حضرت غلام علی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ:نیند سے بیدار ہونے پر توجہ اللہ کی طرف ہو ۔ پھر فرمایا:جب دائمی حاصل ہو جاتی ہے ، پھر آنکھیں سوتی ہیں ، لیکن دل جاگتا رہتا ہے ، جیسے نبی ﷺ فرماتے تھے کہ :میرا دل جاگتا ہے ، لیکن آنکھیں سوتی ہیں۔ فرمایاکہ :علم تین طرح کا ہوتا ہے : (۱) علم الیقین(۲) عین الیقین (۳) حق الیقین فرمایا کہ :علم الیقین میں سالک کی توجہ دل کی طرف ہوتی ہے اور عین الیقین میں سالک کی توجہ اللہ تعالی کے نام کی طرف ہوتی ہے ، یعنی سالک حقیقی آنکھوں سے جو کہ سر میں ہیں ، اللہ تعالی کے نام کو دیکھتا ہے۔فرمایا :حق الیقین یہ ہے کہ تم اپنے دل کو حضوری میں لے آؤ، جب حضوری حاصل ہو جائے کہ قلب حضور میں غرق ہو جائے اور اسم ذات کے مفہوم میں غرق ہو جائے اللہ تعالی کے اخلاق سے متعلق ہو جائے یہ حق الیقین کا مقام ہے ۔ حضرت مولانا سید حبیب اللہ شاہ صاحب فاضل دیوبند (مرحوم) حضرت ؒ کے خلیفہ مجازکا واقعہ ماسٹر احمد صاحب کا بیان ہے کہ میں مولانا مرحوم کے ساتھ تھا ، وہ حضرت خلیفہ صاحب ؒ کو ان کی مسجد میں حالات سنانے لگے کہ انہوں نے ذکر کرتے وقت یہ دیکھا کہ ذکر کے دوران مسجد میں حضرت خلیفہ صاحب ؒ بالکل میرے سامنے بیٹھے تھے ، اور حضرت احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ مسجد کے صحن میں بیٹھے تھے ، اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہوا میں معلق تخت پر موجود تھے ، حضرت خلیفہ صاحب ؒ نے مولانا صاحب سے فرمایا:جیسا کہ آپ نے دیکھا یہ میری تعبیر ہے ، اللہ تعالی اس پر قادر ہے کہ لطائف کو ان صورتوںمیں دکھا سکتا ہے ۔ کرو اور بھول جاؤ! ۱۲ رمضان المبارک ۲ فروری ۱۹۹۶ء کو ایک سلسلئہ گفتگو میں فرمایا کہ :حضرت علامہ سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے تصوف کا لب لباب پوچھا،حضرت ؒ نے جواب دیا : کرو، اور بھول جاؤ! مدینہ طیبہ کی حاضری کے تأثرات عمرے سے واپسی کے بعد حضرت خلیفہ غلام رسول صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ مدینہ طیبہ حاضری کے تأثرات بیان کریں۔فرمایا کہ:استاذ شیخ الحدیث مولانا علاء الدین صاحب نے بھی یہی سوال کیا ، فرمایا کہ :مکہ و مدینہ شریف کے حالات سنائیں !فرمایا کہ :یہ کتاب میں لکھنے کی باتیں نہیں ہیں ، بہر صورت مدینہ منورہ کے یہ حالات دیکھے تھے کہ میرے سینے میں اس قدر وسعت تھی کہ اگر آسمان وزمین میرے سینے پر رکھ دیئے جاتے تو وہ اس میں سما جاتے ۔اور خاص کر حضورﷺ کی اس قدر توجہ تھی کہ میں یقین کے ساتھ یہ تصور کرتا تھا کہ یہ وجود ایسے ہوتا تھا جیسا کہ یہ حضورﷺ کا وجود ہے ۔فرمایا:مدینہ منورہ میں مجبوری کی وجہ سے باتیں کرتا تھا ، وگرنہ دل نہ چاہتا تھا ، اگر نہ بولتا تو لوگ کہتے بڑا متکبر اور مغرور ہے ۔ شیخ کی بات پریقین حضرت خلیفہ غلام رسول صاحب ؒ نے ایک سلسلئہ گفتگو میں فرمایاکہ :جب ان کے بھائی گاموں بیمار تھے ، تو ان کے بیٹے حافظ حفظ الرحمن کو فکر تھی کہ والد صاحب مر جائیں گے،گاموں کہتے تھے کہ :میں اس وقت تک فوت نہیں ہوں گا جب تک حضرت خواجہ حسن ؒ میرے پاس تشریف نہیں لائیں گے ،کیونکہ حضرت صاحب ؒ نے ان کو ایک دفعہ کہا تھا،چنانچہ ایک دن ان کے بیٹے نے خواب میں دیکھا کہ حضرت خواجہ حسن صاحب ؒ دو بزرگوں کے ساتھ تشریف لائے ہیں ، ان کے والد نے شیخ کا استقبال کیا ، حضرت خواجہ غلام حسن ؒ نے ان دو بزرگوں (جو کہ فرشتے تھے ) کو کہا کہ:یہ میرا خاص آدمی ہے ، ان کا خاص خیال رکھیں ، اس کے بعد حافظ گاموں کاانتقال ہو گیا۔ علم سے تکبر پیدا ہوتا ہے حضرت خلیفہ غلام رسول صاحبؒ نے فرمایا: حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ،حضرت مولانا سید سلیمان ندوی کو حضرت تھانوی ؒ کی خدمت میں بیعت کے لئے لے گئے ، حضرت تھانوی ؒ نے کہا : آپ ان کو خود بیعت کر لیں !حضرت مدنیؒ نے کہا : میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں ۔ حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒنے کہا : مولانا عبدالماجد دریا آبادیؒ کے پاس چلے جاؤ ، وہ حضرت تھانوی ؒ کے خلیفہ ہیں ، ان کی سفارش چلے گی ، وہ حضرت تھانوی ؒ کے بھید جانتے ہیں ۔ جب مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے سفارش کی تو حضرت ؒ مان گئے ، لیکن ساتھ کہا کہ بیعت کے لئے دو شرطیں ہیں : پہلی شرط: سید سلیمان ندوی نے قرآن کے معنی میں ایک جگہ غلطی کی ہے ، اس کو صحیح کریں، اخبار میں کٹنگ دیں، اور میرے پاس بھجوائیں ۔ دوسری شرط: دوسری شرط یہ ہے کہ کسی سے کلام نہیں کریں گے ، یعنی چپ کا روزہ رکھیں گے، میری مجلس میں جہاں پر جگہ ملے وہاں پر بیٹھیں گے ۔ حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ نے دونوں شرائط منظور کر لیں، جب چالیس دن گزر گئے ، حضرت تھانوی ؒ نے خلافت سے نوازا ۔ حضرت سید سلیمان ندوی نے دوسری شرط کی وجہ پوچھی،فرمایا :وہ اس لئے تھی کہ آپ کے دماغ سے علم کاخناس (نشہ) نکل جائے۔فرمایا: علم سے تکبر پیدا ہوتا ہے ۔ فرمایا: اس واقعے کو بیان کرنے والے حضرت مولانا شمس الحق افغانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں ۔ اللہ اللہ کہنے والا سیف قاطع ہوتا ہے احقر کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ حضرت خلیفہ غلام رسول صاحبؒ نے ناچیز کے گھر میں چند رمضان گزارے،ایک رمضان میں تراویح کے لئے کچھ تاخیر ہو گئی، تراویح حضرت ؒ مدرسہ نعمانیہ حضرت شیخ الحدیث صاحبؒ کی ہمراہی میں قاری خلیل کے پیچھے پڑھا کرتے تھے ۔یہ غالبا ۱۹۹۵ء کا رمضان تھا ، راقم الحروف کے گھر (واقع جامع مسجد عیدگاہ ) اور مدرسہ نعمانیہ کے دوران فاصلہ اچھا خاصاتھا ، گاڑی کی چابی برخوردار عبدالرحمن جیب میں بھول کر لے گئے تھے ، و ہ محلے کی مسجدمیں تراویح کے لئے جاچکے تھے ، ان سے چابی منگوائی ، جب ہم نے گاڑی اسٹارٹ کی،جماعت کھڑی ہونے میں پانچ منٹ باقی تھے ، اور ہم نے نماز مدرسہ نعمانیہ میں پڑھنی تھی، حضرت ؒ نے کہا : آج نماز سے رہ گئے !ناچیز نے حضرت ؒ سے کہا:ہم ان شاء اللہ !جماعت کی نماز ضرور حاصل کرلیں گے ۔قدرت کا کرنا ایساہوا کہ ہمیں جماعت مل گئی اور اچھی خاصی مل گئی، جب نماز سے فارغ ہو گئے تو حضرت ؒ نے فرمایا کہ :(اہل اللہ کہتے ہیں ) جب سالک روزانہ مختلف لطائف پر بارہ ہزار مرتبہ اسم ذات کہتا ہے تو اللہ تعالی اس کو (سیف قاطع) بنا دیتا ہے ، یعنی اس کی بات تلوار کی طرح کاٹتی ہے ، کیونکہ وہ اس کی اپنی بات نہیں ہوتی ، وہ اللہ تعالی کی بات ہوتی ہے ۔ اللہ والوں کے نزدیک فنا کی تعریف ۱۴ رمضا ن المبارک مؤرخہ ۴ فروری ۱۹۹۶ء کو حضرت خلیفہ غلام رسول صاحب ؒ نے ایک سلسلئہ گفتگو میں فرمایاکہ جب سالک اللہ اللہ کرتا ہے ، اس کو فنا اور بقا حاصل ہو تاہے ۔ حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ فانی فی اللہ بے رنگ فرماتے ہیں کہ : جب سالک چالیس سال تک تخلیہ اختیار کرتا ہے اور ہر روز چالیس ہزار اسم ذات اور چالیس ہزار مرتبہ نفی اثبات کرے تو چالیس سال کے بعد فنا کو پہنچے گا ۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فنا یہ ہے کہ جتنے خصائل ورزائل ہیں ، سب کے سب کم ہوجائیں ،یہ فنا ہے ۔ حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فنا تین قسم کی ہوتی ہے : (۱) فنائے خالق : مخلوقات سے امیدباقی نہ رہے ۔ (۲) فنائے ہویٰ: اللہ تعالی کے بغیر دل کے اندر کو ئی خیال نہ رہے ۔ (۳) فنائے ارادہ: یعنی کوئی ارادہ کسی قسم کا دل کے اندر نہ ہو، دل کے اندر کوئی آرزو نہ ہو، لیکن ارادہ والی فنا حضرت عالی درجات نقشبندیہ والوں کو حاصل ہوتی ہے ۔ اللہ والے عجیب ہوتے ہیں ! ایک سلسلئہ گفتگو میں حضرت خلیفہ غلام رسول صاحب ؒ نے فرمایا: اللہ والے عجیب ہوتے ہیں ۔فرمایا:ایک دفعہ قحط پڑ گیا تھا ، کافی دنوں سے بارش نہیں ہوئی ، لوگوں نے حضرت خواجہ غلام حسن سواگی رحمۃ اللہ علیہ سے شکایت کی ، حضرت ؒ نے دعا کے لئے ہاتھ اوپر اٹھائے اور فرمایا کہ :اگر آج بارش نہ ہوئی تو میری داڑھی صاف کر دینا۔کسی اہل علم نے اعتراض کیا ، جواب میں فرمایا کہ :مجھے خود بھی ان الفاظ کا احساس ہے ،لیکن میں کیا کروں ،میرے لئے اللہ تعالی کا حکم تھا۔ حضرت خواجہ غلام حسن سواگی رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ یہ تھا کہ اگر سبق (مراد ذکر کا سبق ہے ) پکا اور یاد ہوتا تو دوسرا (اگلا) سبق دیتے تھے ، وگرنہ کہتے کہ جاؤ کوشش کرو ، سبق یاد کرو۔فرمایا:حضرت خواجہ غلام حسن سواگی رحمۃ اللہ علیہ صرف لطیفہ قلب پر سبق دیا کرتے تھے ، اور فرمایا کرتے تھے سرائیکی زبان میں :مرو اوترے کم کیوں نیوے کریندے ،حضرت خواجہ غلام حسن رحمۃ اللہ علیہ صرف علمائے کرام کو لطیفہ قلب کے علاوہ دوسرے لطائف پر سبق دیتے تھے ۔ اللہ تعالی نے ہر مخلوق میں اسرار رکھے ہیں حضرت خلیفہ غلام رسول صاحب ؒ نے فرمایا کہ: حضرت سلیمان علیہ السلام کا تخت جا رہا تھا ، ایک جگہ پہنچنے ، تخت کو حکم دیا کہ چیونٹی کے پاس اتر جاؤ، چالیس دن اور چالیس رات چیونٹی کے پاس رہے ، چیونٹی نے چالیس دن اللہ تعالی کی توحید کے اسرار بیان کئے ، اللہ تعالی نے فرمایا کہ:اگر چیونٹی کا کالا لباس اتار دوں پھر دیکھو چیونٹی میں کتنا کمال ہے ، اللہ تعالی نے چیونٹی کے پاس بھیجا ۔ اسی طرح موسی علیہ السلام کو ایک رات بڑے اسرار احاصل ہوئے ، بہت خوش ہوئے فرمایا:جو اسرار اللہ تعالی نے مجھے اس رات دیئے ، کسی کے پاس نہیں ہوں گے ۔اللہ تعالی نے مینڈک کو ان کے پاس بھیجا ، مینڈک نے فصیح زبان میں کہا کہ :وہ رات کے اسرار میں نے بیان کئے ، یعنی اللہ تعالی نے ہر مخلوق میں اسرار رکھے ہیں ۔ حضور ﷺ نے فرمایا:اے اللہ ! اپنی مخلوق کی حقیقت میرے سامنے کھول دے ، قرآن کے مطابق ہر جانور ، ہر پرندہ ، ہر چیز اللہ تعالی کی حمد وتسبیح کرتی ہے ، اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا کہ :میں اپنی فوج (لشکر) کو خود ہی جانتا ہوں ،ساری مخلوق اللہ تعالی کی فوج ہے ، وہ اللہ تعالی ہی اپنی فوج کو جانتا ہے ، صرف ملائکہ ہی نہیں ہر جانور اللہ کی فوج ہے ۔ استاذ کی قدردانی حضرت خلیفہ غلام رسول صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دینی کتابوں کی تعلیم،مسلم ،ترمذی وغیرہ شیخ الحدیث حضرت مولانا علاء الدین صاحب ( شاگرد حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ ) سے پیرانہ سالی ، حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ سے خلافت لینے کے بعد مکمل کیں ۔ حضرت خلیفہ صاحب ؒ استاذ محترم کی عزت کرتے تھے اور ان کے سامنے دو زانو بیٹھتے تھے ،حالانکہ عمر میں استاذ صاحب سے بڑے تھے ۔ درود شریف کے فضائل حضرت خلیفہ غلام رسول صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ:جو بھی شخص درود شریف پڑھتا ہے ، جنت میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے ، جنت بڑھتی چلی جاتی ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ جنت رسول اللہ ﷺ کے نور سے پیدا ہوئی ہے ، جنت کا مادہ رسول اللہ ﷺ کی ذات ہے ، اس کی غذا حضورﷺ کا درود پاک ہے ،جتنے ملائکہ جنت کے ارد گرد ہیں ان کا وظیفہ درود شریف ہے ، جب وہ درودشریف پڑھتے ہیں ، جنت ان کی طرف بھاگ کر آتی ہے ۔دوسری بات بڑی عجیب وغریب ہے کہ اگر اللہ پاک جنت کو نہ روکتا تو دنیا میں جنت آپ ﷺ کے ساتھ رہتی ۔جنت کو اس لئے روکاکہ معتبر ایما ن بالغیب ہے نہ کہ مشاہدہ ۔معتبر ایمان وہ ہے جو غیب کے ساتھ ایمان لائے ۔حضورﷺ نے فرمایا کہ : جنت حق ہے ۔ہم حضورﷺ کے حکم پر ایمان لائے ہیں نہ کہ جنت پر ۔فرمایا:اس میں ، میں ایک اور بات کرتا ہوں ، آپ اعتراض کریں گے (علماء شاید اعتراض کریں گے ) تسبیح وتہلیل کے ساتھ جنت میں وسعت نہیں آتی، اگر آتی ہے تو درود پاک سے آتی ہے ، تسبیح وتہلیل سے جنت میں درخت لگتے ہیں ۔ عشرہ ذی الحجہ کے اعمال ۔حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنھماسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے یہاں(ذو الحجہ کے)دس دنوں کی عبادت سے بڑھ کرعظیم اور محبوب ترکوئی عبادت نہیں؛ لہٰذاان میں”لاالہ الا اللّٰہ ،اللّٰہ اکبر،الحمد للّٰہ“ کثرت سے پڑھا کرو۔ (احمد،بیہقی) ذی الحجہ شروع ہوتے ہی بال اور ناخن نہ کاٹے جائیں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نےارشاد فرمایا : ’’جب ذوالحجہ کاپہلا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کسی کا قربانی دینے کا ارادہ ہو تو وہ بال، ناخن یا کھال کا کچھ حصہ نہ کاٹے ، جب تک قر بانی نہ دے دے. ‘‘ ایک روایت میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ ذو الحجہ کا چاند طلوع ہوتے ہی ان چیزوں سے رک جائے۔ اس حدیث کی روشنی میں فقہاءِ کرام نے اس عمل کو مستحب قرار دیا ہے کہ جس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے اس کے لیے مستحب ہے کہ ماہِ ذی الحجہ کے آغاز سے جب تک قربانی کا جانور ذبح نہ کرے جسم کے کسی عضو سے بال اور ناخن صاف نہ کرے ، نیز بلاضرورت کھال وغیرہ بھی نہ کاٹے، اور یہ استحباب صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو۔ البتہ بعض احادیث میں ہے کہ قربانی نہ کرنے والے بھی قربانی کرنے والوں کی مشابہت اختیار کرکے عام لوگوں کی قربانی کے بعد ناخن اور بال وغیرہ کاٹیں تو اللہ سے امید ہے کہ وہ بھی ثواب سے محرو م نہیں ہوں گے۔ لاہور سے مجھے اللہ ملاہے حضرت خلیفہ غلام رسول صاحب ؒ نے ایک سلسلئہ گفتگو میں فرمایا کہ: ایک عاشق سے کسی نے پوچھا : آپ کو کون سا شہر اچھا لگتا ہے؟کہا:شہر تو بہت دیکھے ہیں ،لیکن وہ اچھا لگتا ہے جس میں ہمارا محبوب رہتا ہے ! اس لئے حضرت خلیفہ صاحب ؒنے فرمایا : مجھے لاہور کے انسان ، گلیاں اور کتے بھی اچھے لگتے ہیں ،کیونکہ لاہور سے مجھے اللہ ملا ہے ! اللہ والوں نے اس کے لئے بڑے مجاہدات کئے ہیں حضرت خلیفہ صاحب ؒ نے ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ: حضرت خواجہ سلیمان تونسوی کے شیخ چشتیاں (مہار شریف) میں رہتے تھے ، حضرت خواجہ سلیمان تونسویؒ تونسہ شریف سے پیدل مہار شریف جاتے تھے ، سفر شروع کرتے وقت کمر کس لیتے تھے اور چنے ساتھ لے لیتے تھے ، راستے میں نماز کے اوقات میں نماز کے لئے ٹھہرتے تھے ،ورنہ پیدل سفر جاری رکھتے تھے ، ان کے پاؤں پیدل سفر کی وجہ سے خون آلودہ ہو جاتے تھے ، والدہ نے ان کو کانٹے دار جاڑیوں کے باڑ دے کر ان کو بند کر رکھا تھا ، لیکن جب ان کو شیخ کا خیال آتاتھا یہ بے تاب ہو جاتے تھے ، ایک دفعہ کانٹے دار جھاڑیوں کی باڑ سے چھلانگ لگانے کی کوشش کی تو جھاڑیوں میں گر کر بری طرح زخمی ہو گئے، لیکن شیخ کے پاس پہنچ گئے ۔اگر خدا ایسے ہی ملتا تو لوگ اتنی محنت کیوں کرتے ؟حضرت خلیفہ صاحب ؒ نے فرمایا:رب ملتا ہے قربانی سے ،خالی دعا سے نہیں ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جانیں دیں ،رسول اللہ ﷺ مل گئے ، حضرت خواجہ غلام حسن سواگی رحمۃ اللہ علیہ نے جان ومال اور ہر قسم کی قربانی دی فرمایا: کہاں دین پور (سندھ) اور کہاں شیخ لاہوری کہاں جھنجانوی اور کہاں تھانوی، کہاں دہلی اور کہاں سرہند شریف ، اور کہاں کابل ، کہاں کردستان اور کہاں دلی۔فرمایا:حضرت علامہ خالد کردی کردستان (عراق) سے مدینہ اور مدینہ طیبہ سے دلی کا سفر کیا ، حضرت دوست محمد قندھاری ؒنے کابل سے حرمین ، حرمین سے عراق اور عراق سے دلی کا سفر کیا ۔ عشق جاگ رہا ہے اور تم سو رہے ہو حضرت خلیفہ صاحب ؒ نے فرمایا: خواجہ ضیاء الدین رحمۃ اللہ علیہ ایک اللہ والے گزرے ہیں ، ان کا ذکرحضرت شاہ غلام علی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ملفوظات میں کیا ہے ، اپنے مریدوں کو اٹھاکرکہتے تھے کہ :تم لوگ عشق کا دعویٰ چھوڑ دو ، ارے بد بختو !جاگو عشق جاگ رہا ہے ، اور تم سو رہے ہو!حضرت خلیفہ صاحب ؒ نے فرمایا :آج کل رسمی پیر ہیں اور رسمی مرید ہیں ۔ شیطان سے بچنا آسان، نفس سے بچنا مشکل ہے حضرت خلیفہ غلام رسول صاحب ؒ نے ایک سلسلہ گفتگومیں فرمایا کہ:حضرت شرف الدین منیری ؒ نے فرمایا کہ :شیطان سے بچناآسان ہے ، لاحول ولا قوۃ الا باللہ ، یا ،اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ، پڑھ لو، شیطان ہٹ جائے گا ، لیکن نفس کے حملے سے بچنا بہت مشکل ہے ، اس کا علاج صرف مجاہدہ ہے ، یعنی ہمت کر کے نفس کی خواہش کے خلاف کرنا اور یہی بڑا جہاد ہے ، نفس کہتا ہے :تم نے بڑی اچھی نماز پڑھ لی ، بس نفس نے مار لیا۔ قرآن کریم کی برکات تراویح سے فارغ ہونے کے بعد احقر اور حضرت خلیفہ غلام رسول صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت مولانا قاری خان زمان نائب ناظم مدرسہ نعمانیہ کے کمرے میں گئے ، حضرت ؒ نے پہلے لوگوں کی قربانیوں ، حفظ قرآن کا شوق اور قرآن کریم کی برکات کا ذکر شروع کیا ، حضرت ؒ نے فرمایا: پہلے طلبہ میں ذوق ہوتا تھا ، سوکھی روٹی کھا کر ، راتوں کو جاگ کر ،صبح سویرے کے تہجد کے وقت اٹھ کر (شاگرد بھی اور استاذ بھی) قرآن کو پڑھتے اور پڑھاتے تھے ۔ فرمایا:اس زمانے میں جس درس میں جاتے تھے کستوری کی خوشبو آتی تھی۔حضرتؒ نے ایک واقعہ بیان کیا کہ موضع کوٹ جائی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان ، میانہ قوم کے تین بھائی تھے ،بڑے بھائی کا نام استاذ عبدالکریم تھا ، کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے ، اور تینوں بھائی حافظ قرآن تھے ۔روزانہ تینوں بھائی صبح سویرے کھیت میں کام کرنے سے پہلے دس سپارے قرآن پاک کے پڑھتے تھے ، اس کے بعد کھیتی میں کام کرنے کے لئے جاتے تھے ، روزانہ قرآن پاک کا ختم کر کے بیلوں کے گلے میں پنجالی ڈالتے تھے ، ان کے زمیندار ے میں اللہ رب العزت نے ایسی برکت رکھی کہ کوئی چڑیا اگر غلطی سے ان کے زمیندارے کادانہ چگ لیتی تھی ،وہاں پر پھڑک کر مر جاتی تھی،آس پاس کے زمیندار اپنے جانوروں کو ان کے کھیت کے قریب نہیں جانے دیتے تھے ، ڈرتے تھے کہ اگر جانور نے ان کے کھیت سے کھا لیا تو جانور سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔ حضور ﷺ کی سنت داڑھی کی اہمیت رئیس خان اسلا م آباد کے ماحول پر حضرت خلیفہ غلام رسول صاحب ؒ سے بات کر رہے تھے کہ داڑھی نہ ہونے کی وجہ سے مختلف قسم کی مجالس میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ : ایک شخص نے تصوف پر کتاب لکھی ، وہ کتاب ایران میں ایک ایرانی نے پڑھی ، وہ شخص مصنف کی زیارت کے لئے ہندوستان آیا ،تو وہ حجام کی دکان پر داڑھی منڈوا رہا تھا ، اس شخص نے کہا کہ :یہ تم کیا کر رہے ہو ؟مصنف نے جواب دیا کہ :میری اپنی داڑھی ہے ، اس سے آپ کو کیا مطلب ؟اس شخص نے کہا کہ :تم رسول اللہ ﷺ کے جگر کو کاٹ رہے ہو !یہ سنتے ہی وہ بے ہوش ہو کر کرسی پر گر گیا ، جب ہوش میں آیا تو کہنے لگا :مجھے آج اس بات کی سمجھ آ گئی ہے ،اور اس نے داڑھی رکھ لی ۔ دنیا میں بڑی چیز کون سی ہے ؟ ایک بیٹے نے باپ سے پوچھا :دنیا میں سب سے بڑی چیز کونسی ہے ؟کہا :زمین و آسمان!کہا :اس سے بڑی چیز کیا ہے ؟کہا:میرے گناہ !پوچھا :اس سے بھی بڑی چیز کیا ہے ؟ کہا : اللہ پاک کی رحمت ! تصوف وسلوک کیا ہے ؟ سلوک کہتے ہیں : تعمیر الظاہر والباطن کو یعنی ظاہری اعضاء اور قلب کو اپنے مولی حق تعالیٰ کی اطاعت میں اس طرح مشغول رکھا جائے کہ خاتم النبیین ﷺ کے بتائے ہوئےطریقے اور تعلیم فرمائی ہوئی شریعت کے اتباع کی اس درجہ عادت پڑجائے کہ سنت نبویہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام پر عمل کرنا طبعی شیوہ اور خلقی شعار بن جائے ، تکلف کی حاجت نہ رہے ۔ چونکہ سید الانبیاء ﷺ ظاہر وباطن دونوں اعتبار سے انتہائی معتدل ہیں ،لہذا آپ ﷺ کی تمام حرکات وسکنات وعادات اس کامل اعتدال پر تھیں جن کی تقلید ہر انسان کے قلب کو معتدل بنا سکتی ہے ، اور چونکہ اعضاء کے ساتھ قلب کو خاص تعلق ہے ،اس لئے مسلمان جب کوشش کرتا ہے تو عبادات کے علاوہ عادات میں بھی نبی کریمﷺ کی اتباع ہمیشہ ملحوظ رکھنے سے اس کے اعضاء میں سے کجی دور ہو جاتی ہے ،جس کااثر قلب پر پڑتا ہے ،یہاں تک کہ قلب اخلاق رزیلہ سے متنفر اور خصائل حمیدہ سے متصف ہو کر معتدل بن جاتا ہے ، قلب کے اس اعتدال کا نام نسبت ہے ، پھر اللہ ورسول ﷺ کی اطاعت میں لذت آنے لگتی ہے اور معصیتوں سے نفرت پید ا ہو جاتی ہے ۔انسان خواہشات اور نفسانیت سے نکلنا شروع ہو جاتا ہے ،یہاں تک کہ قلب کو مغیبات کے اعتقاد میں وہ مٹھاس معلوم ہوتی ہے جس کو دنیا کی لذیذ سے لذیذ نعمت سے بھی تشبیہ نہیں دی جا سکتی ۔ اللہ تعالی کے ذکر اور فکر سے اس درجہ انس حاصل ہو جاتا ہے کہ ایک لمحہ اس کا چھوٹنا (جس کو غفلت کہتے ہیں ) ہفت اقلیم کی سلطنت کے لٹنے اور جان ومال ، اہل وعیال ، عزت وآبرو ، غرض ہر مرغوب سے مرغوب اور پسندیدہ سے پسندیدہ چیز کے گم ہونے سے زیادہ ناگوار گزرتا اور کوفت کا سبب بن جاتا ہے ۔ طریقت یا تصوف شریعت سے جدا نہیں ہے طریقت یا تصوف اور تزکیہ کو شریعت سے جدا نہ سمجھا جائے۔ حق تعالی کا ارشاد ہے : ﴿هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهٖ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ﴾ (الجمعة: 2) ترجمہ۔۔وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا وہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اورانہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور بے شک وہ اس سے پہلے ضرور کھلی گمراہی میں تھے ۔ اس آیت میں اللہ تعالی نے نبی کریم a کی بعثت کے تین مقاصد بیان فرمائے ہیں: پہلا مقصد بعثت: تلاوت آیات، اس سے مراد دعوت الی اللہ ہے، اس لئے کہ نبی کریم a کی دعوت کا اسلوب قرآن پڑھ کردعوت دینا تھا اور یہ دعوت بے طلبوں میں بے غرض بن کر دی جاتی تھی۔ دوسرا مقصدبعثت: تعلیم کتاب و حکمت، جن لوگوں کو دین کی طلب پیدا ہو جائے ، ان کو کتاب و حکمت سکھانا۔ تیسرا مقصد بعثت : تزکیہ نفوس، نفوس کو ظاہراً و باطناً پاک وصاف کرنا۔ یہ تین فرائض نبوت امت مسلمہ پر بھی بطور فرضِ کفایہ عائد ہیں،چنانچہ قرناً بعد قرن،اکابرِ امت نے ان تینوں فرائض کی ادائیگی میں پوری توجہ اور کوشش مبذول فرمائی، چنانچہ حضرت مولانا سید سلیمان ندویjاپنی کتاب " مولانا محمد الیاس ؒ اور ان کی دینی دعوت "کے مقدمے میں لکھتے ہیں: رسول کریم a نے ان تینوں فرائض کو بحسن و خوبی انجام دیا ، لوگوں کو احکام الہی اور آیات ربانی پڑھ کر سنائیں، اور ان کو کتاب الہی اور حکمت ربانی کی باتیں سکھائیں، اور اسی پر اکتفا نہ کیا ، بلکہ اپنی صحبت، فیض تا ثیر اور طریق تدبیر سے پاک و صاف بھی کیا، نفوس کا تزکیہ فرمایا، قلوب کے امراض کا علاج کیا، اور برائیوں اور بدیوں کے زنگ اور میل کو دور کر کے اخلاق انسانی کو نکھارا ۔ اور سنو!یہ دونوں کام ظاہری اور باطنی فرض یکساں اہمیت سے ادا ہوتے رہے، چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کے بعد تابعین اور پھر تبع تابعین کے تین طبقوں تک یہ دونوں ظاہر ی اور باطنی کام اسی طرح جڑےرہے، جو استاذ تھے وہ شیخ بھی تھے ، اور جو شیخ تھے وہ استاذ بھی تھے، وہ جو مسند درس کو جلوہ دیتے تھے، وہ خلوت کے شب زندہ دار اور اپنے ہم نشینوں کے تزکیہ وتصفیہ کے بھی ذمہ دار تھے ان تینوں طبقوں میں استاذ اور شیخ کی تفریق نظر نہیں آتی تھی۔ Website has been launched you can asked directly from the website. ویب سائٹ شروع کردی گئی ہے آپ ویب سائٹ سے براہ راست پوچھ سکتے ہیں۔

Our History

About Center Of Islamic Fiqh


What We Provide


Welcome to the Center of Islamic Fiqh, your trusted source for comprehensive Islamic guidance and fatwas. At the heart of our website lies a commitment to providing clear and authoritative answers to your questions on Islamic jurisprudence. Our team of esteemed scholars and experts delve into a wide array of topics, offering nuanced insights and practical guidance rooted in the rich tradition of Islamic teachings.

Explore our meticulously crafted fatwas that address contemporary issues, ensuring relevance in the ever-evolving world while staying true to the principles of Islamic Fiqh. Whether you seek answers on matters of daily life, morality, or complex legal issues, our website serves as a beacon of knowledge, offering well-researched responses grounded in Quranic verses, Hadiths, and scholarly consensus.

Welcome to Center Of Islamic Fiqh


We provide high level knowledge and develop scholarly symposiums, seminars, courses, and programs for all segments of the community

View More

Explore Content

Listen To Bayanats & Download Islamic Books


1044

Fatawa

6007

Books

7

Bayanat

4

Dream Interpretations

Our Services

We Provide Islamic Educational Services


Get Fatwa Now!

Get Help From Qualified Islamic Scholars!


Submit Your Query Now!


Do you need help related to any fatwa? Submit your query now and get reply via email.